اے میرے دیس کے لوگو! تم شکایت کیوں نہیں کرتے؟
اتنے ظلم سہہ کر بھی، تم بغاوت کیوں نہیں کرتے؟
یہ جاگیروں کے مالک اور لٹیرے کیوں چنے تم نے؟
تیرے اوپر تیرے جیسے حکومت کیوں نہیں کرتے؟
اے میرے دیس کے لوگو! تم شکایت کیوں نہیں کرتے؟
اپنے مقدر کو بدلنے کی ، تم جسارت کیوں نہیں کرتے؟
اتنے ظلم سہہ کر بھی، تم بغاوت کیوں نہیں کرتے؟
میرے منصف تمہارے فیصلوں سے مجھکو کیا حاصل،
میرا جو کیس ہے، اس کی تم سماعت کیوں نہیں کرتے؟
اگر تسلیم کرتے ہو میری باتیں مدلل ہیں۔۔۔
تو پھر میرے موقف کی تم حمایت کیوں نہیں کرتے؟
اے میرے دیس کے لوگو! تم بغاوت کیوں نہیں کرتے؟؟؟
آخر کب تک؟
موٹروے پر بچوں کے سامنے خاتون سے زیادتی۔۔۔
گل پانرہ کی درندگی سے جان لینا۔۔۔
سر عام پولیس وارڈن کو کچلنے والا مجید اچکزئی باعزت بری۔۔۔
بلوچستان کی نیوز کاسٹر کو سر عام گولیاں۔۔۔
وکیل خاتون چار دن تک اغواہ۔۔۔
حیات بلوچ کا خون۔۔۔
ملتان کی روڈ پر یونیورسٹی ٹیچر پو تشدد۔۔۔
دس محرم کے دن بچے سے درندگی۔۔۔
عید کے دن حافظ قرآن لڑکے کی جان لے کی گئی۔۔۔
ملک ریاض کی بیٹی کا گارڈز کے ہمراہ جا کر اداکارہ پر تشدد۔۔۔
اے ٹی ایم سے معمولی چھیڑ چھاڑ پر اتنی تذلیل اور پیاسے کو جان سے مار دیا۔۔۔
یونیورسٹی کے طالب علم نقیب اللہ مسعود پر گولیاں برسائی گئی۔۔۔
ساہیوال میں بچوں کے سامنے والدین اور بہن پر گولیاں برسائی گئی۔۔۔
سات سالہ زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔
ہم چار دن ما سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلاتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں۔۔۔ یقینن ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت ایک قوم، کہاں کھڑے ہیں؟
کیا پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ لکھنا زیادتی نہیں؟
قومیں اپنے کام سے پہچانی جاتی ہیں، اور بجائے سدھرنے کے، روز بروز ہماری درندگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔
آخر کب تک؟
زور کے سامنے کمزور، تو کمزور پہ زور،
اے عادل شہر، تیرے عدل کے معیار پہ تھو۔۔۔
جو صرف اپنے ہی لوگوں کا گلا کاٹتی ہو،
ایسی تلوار پہ لعنت، ۔ مع صاحب تلوار پہ تھو۔۔۔
یکساں جہاں پہ سب کو نا میسر ہو انصاف،
ایسی عدالتوں سے بھری ریاست پہ تھو۔۔۔
روز اول سے جو غیروں کا وفادار رہا،
شہر بد بخت کے اس دوغلے کردار پہ تھو۔۔۔
زور کے سامنے کمزور،
تو کمزور پہ زور۔۔۔
اے عادل شہر،
تیرے کردار پہ لعنت،
تیرے عدل کے معیار پہ تھو۔۔۔