Sad poetry dr maryam
"کچھ بھی باقی نہیں ہے درمیاں "
پھر یوں ہوا محبت میں روانی نہیں رہی
آنکھ اشک اشک تھی یعنی پانی نہیں رہی
حقیقت کے روبرو تھی نہ آئینہ دل کی طرح
یعنی اس شخص کی تصویر پرانی نہیں رہی
بحرو بر کی طرح موج سخن سے قریب تر
الفاظ میں نمی ہاں پہلی سی کہانی نہیں رہی
تو دیکھ رہا ہے اے عمر گزشتاں کے مسافر
دریا تو وہی ہے پانی میں روانی نہیں رہی
اور ہجر کے بھاؤ کوئی بتائے گا مجھے آکر
اک اک لمحہ صدیوں کی نشانی نہیں رہی
دینے والے نے خیرات میں دکھ ھی دیئے تھے
پہلے سے سائل نہ پہلی سی فراوانی نہیں رہی
ہاتھ کی جھریوں پہ نظر ڈالوں یا چہرے کی سنو بات
چرکھا کھات رہی بڑھیا کی جوانی نہیں رہی
ہاتھ اٹھاتی ہوئی مریم نے دیکھا جانب آسمان
خواب تو شرمندہ ہیں تعبیر جاودانی نہیں رہی
ڈاکٹر مریم ناز
No comments:
Post a Comment